پاکستان کے مایہ ناز باؤلر شعیب اختر جو کہ پنڈی ایکسپریس کے طور پر جانے جاتے ہیں نے اپنا ایک یادگار واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ
جب میں پنڈی کلب میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا تو گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک گنے کے جوس والا ہوا کرتا تھا جو کہ گنے کے جوس کی ریڑی لگایا کرتا تھا اور مجھے گنےکاجوس بہت پسند تھا لیکن اس وقت میرے پاس پیسے بہت کم ہوتے تھے میں نے گنے کے جوس والے سے کہا کہ آپ مجھے گنےکاجوس مفت پلایا کریں اس کے بدلے میں جب میں کرکٹر بن جاؤں گا اور پاکستان کی انٹرنیشنل ٹیم میں سلیکٹ ہو جاؤں گا تو میں آپ کو ایک گنے کے جوس والی نئی مشین خرید کے دوں گا پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ میری اس سے دوستی ہوتی گئی
ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا کہ شعیب آپ واقعی پاکستان کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ ہو جاؤ گے تو میں نے جواب دیا کہ کیا آپ نے میری آنکھوں میں نہیں دیکھا میری آنکھوں میں دیکھو کتنی آگ ہے پاکستانی اسٹار کرکٹر شعیب اختر کا کہنا تھا کہ اس نے مجھے ڈیڑھ سال گنے کا جوس مفت پلآیا لیکن جب میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ ہو گیا تو میں نے اس کا پتا کیا
افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ فوت ہو چکا تھا مگر میں نے ان کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور اس کی تعزیت کی اور اس کے بعد میں نے مشین کی بجائے انہیں ایک دکان بنوا کر دی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں